کرپشن کی سیاست میں جمہوریت کا سلطان

Posted on at


بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی بھی سیاسی لیڈر اپنی قوم کو آسان لفظوں میں جمہوریت کا فلسفہ نہیں سمجھا سکا اور جمہوریت کے نام پر غریب قوم پر اپنی آمرانہ حکومتیں مسلط کر کے وہ بے رحم کرپشن کی کہ ملک کے درو دیوار ہلا کر رکھ دئےے جمہوری حکومتوں کی آمد کے ساتھ ہی آئے روز مہنگائی اور بدعنوانی کے زریعے عوام سے جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیا گیا جس سے ہر غریب شہری یا تو خودکشی پر مجبور ہو گیا ہے تا پھر جرائم کرنے پر جس کا سب سے بڑا ثبوت طالبان جیسی جہادی قوتوں کا پھیلاﺅ ہے۔ جنہوں نے بدلے کی پیاس ٹھنڈی کرنے کےلئے ملک بھر میں آگ اور خون کا دریا کھڑا کر دیا جس میں وسیع پیمانے پر غریبوں کا جانی نقصان ہوا ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ جس کی ناقابل تلافی جانی مالی نقصان کی ذمہ داری نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے علاوہ جنرل مشرف اور ق لیگ پر بھی ڈالی جا سکتی ہے جنہوں نے عوامی پارلیمنٹ کو آڑھت منڈی بنا کر سیاست کو کاروبار میں تبدیل کر دیا اور آئے روز تجوریاں بھرنے کی سیاست کو فروغ دیتے ہوئے ملک کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔اگر جمہوری حکومتوں کے 30 سالہ دور حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو ہر شہری کھل کر یہ کہہ سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں جبکہ ن لیگ پر نجکاری کے ٹھیکیداروں اور کارخانے داروں کا غلبہ رہا اور انہوں نے غلط قانون سازیاں کرتے ہوئے تمام تر ریاستی وسائل کو لوٹ لیا اور جمہوریت کے تمام تر فوائد کو اپنے مشنری ساتھیوں تک محدود کر دیا اور یہاں تک کہ ریاست کی اصل جمہور یعنی کہ غریب عوام جو کسی بھی مہذب معاشرے کی اکائیاں سمجھی جاتی ہےں انکی نمائندگی کےلئے پارلیمنٹ میں مزدور کی نشست پر کارخانے دار اور تاجر کو جبکہ کسان کی جگہ وڈیروں اور جاگیرداروں کو بٹھا دیا گیا جنہوں نے دنیائے جمہوریت کاچہرہ داغدار کرتے ہوئے بیرونی قرضوں اور قوم سے وصول کئے گئے ناجائز ٹیکسوں پر ذاتی جاگیرداروں اور کارخانوں کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں وسیع پیمانے پر فروغ دیا ہے جس سے قوم کنگال ہو کر رہ گئی ہے اور کل آبادی کے 30 فیصد شہری سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور عشر و زکوة جیسا نظام بھی سیاسی مداخلت کاری سے بچ نہیں سکا اور اس کی ادائیگی کےلئے بھی مختلف پارٹیوں کے ایم این اے غریب لائنوں میں کھڑا کر کے فوٹو سیشن کے زریعے انکی بے کسی کا مذاق اڑاتے ہیں جو کسی حیاءدار معاشرے کےلئے کسی موت کے متقاضی سے کم نہیں۔ اسی ظالمانہ سوچ اور تفریق کی وجہ سے ماضی کے سول صدر مرحوم غلام اسحق خان نے ایک دفعہ پیپلز پارٹی اور ایک ہی دفعہ نواز شریف کی حکومتوں کو فارغ کیا مگر انہوں نے اپنے سیاسی کردار کی اصلاح کے بجائے 58-2B جیسے صدارتی اختیارات کو ہی ختم کر دیا تاکہ سیاہ سفید کا ممبہ صرف وزیر اعظم ہی رہے اور انہیں سنگین ترین بے قاعدگیوں کے باوجود گھر نہ بھیجا جا سکے اگر اس ضمن میں جنرل مشرف اور ق لیگ کے کردار کا بھی جائزہ لیا جائے تو انہیں بھی ملکی تاریخ سنوارنے کا بہترین موقع ملا تھا اور بے رحم احتساب کے زریعے ملک کو سونے کی چڑیا بنا سکتے تھے مگر انہوں نے بھی زیادہ وقت مدرسوں سے جنگ و جدل اور پارلیمنٹ میں خواتین کی مخصوص نشستیں بڑھانے پر گزار دیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان جنگ کے پھیلاﺅ کیساتھ ساتھ ان مسترد شدہ اور موروثی سیاستدانوں کی بیگمات پارلیمنٹ میں پہنچ گئیں جنہیں کبھی کارکن اور غریب خواتین سے کوئی سروکار نہیں رہا اور انہوں نے ملک کی عام خواتین کی جعلی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے جمہوریت کو دھوکہ دیا اور مراعات کے نام پر ریاستی وسائل کو لوٹا۔ جسکے نتائج قوم مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کی صورت میں بھگت رہی ہے مگر تمام تر محرومیوں کے باوجود حکمران تسلسل کیساتھ جمہوریت کا راگ الاپتے رہے کیا جمہوری راگ کسی الحامی کتاب کا نام ہے یا پھر غریب عوام کے مفاد اور ترقی کا نام ہے؟؟ جمہوریت مخصوص سیاسی مافےے کی ترقی کا نام پر تو پھر ملک کا خدا ہی حافظ ہے اور آنے والی نسلیں ان سیاسی بلاﺅں کو کبھی معاف نہیں کرینگی ملک میں جاری کرائم ریٹ کا موازنہ کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہر تیسرا شخص بھوک مٹانے کےلئے بندوق اٹھا لے گا۔ اور ان امیر زادوں کی نسلوں کا تحفظ ممکن نہیں رہیگا۔لہٰذا اس خوفناک انجام سے قبل ہی سیاسی دھوکہ دہی کو ختم کرتے ہوئے ملک کی بھاگ دوڑ اہل اور سچے لوگوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ دیر نہ ہو جائے۔ راقم اگر سیاسی خامیوں پر کتاب بھی لکھ دے تو شاید یہ ختم نہ ہوں۔ المختصر کہ جو حکومتیں 30 سالوں میں قوم کو بجلی جیسی بنیادی سہولت نہیں فراہم کر سکی وہ جمہوریت کی خاک خدمت کرینگی۔ اب قوم جاگ چکی ہے اور محض نعروں اور دھوکہ دہی سے کام نہیں چلے گا۔ ویسے بھی عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاستدانوں کے اصل چہروں کا نقاب ہٹا دیا ہے جس سے قوم اب ان سے نفرت کرنے لگی ہے لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کا سلطان بننے کی بجائے اس بوسیدہ نظام کی اصلاح کرتے ہوئے لوکل باڈی نظام کو پوری شدت سے ملک بھر میں نافذ کیا جائے



About the author

Nidaa

Hiiiii I am Nidaaaa

Subscribe 0
160