عمران خان اور طاہر القادری نام دو کام ایک

Posted on at



بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا                جو چیرا نو اک قطرہ خون نہ نکلا
لندن میں طاہرالقادری سے چوہدری برادران کی طاہرالقادری اور عمران خان کی
خفیہ ملاقاتوں کا ذکر ہوتا رہا لیکن دھرنے میں آکر دونوں کا پہلے الگ الگ پنڈال سجانا اور پھر اکھٹے نمودار ہونا بہت سے باتوں کو عیاں کر گیا جو پہلے کسی د تک خفیہ تھیںسابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے اپنے سلسلہ مضامین میں طاہرالقادری کا پورا احوال سامنے لا کر سنجیدہ اور ملک کے بہی خواہوں کو جس طریقے سے آگاہی کا فرض ادا کیا وہ ہونا ہی چاہے تھا کیونکہ اسلم بیگ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ رہے اور I.S.I سے ان کے روابط بطور آرمی چیف اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے اب کی معلومات عام لکھاریوں سے یقیناََ بہت زیادہ ہیں کسی طرح طاہرالقادری کو کینیڈا میں اس طرف لانے میں امریکا، برطانیہ، سویڈن اور ایران وغیرہ کے سفراءسے ملاقاتیں اور دورے کروا کر یہاں ملک کی معیشت کو بٹھانے اور ملک کے اندر بے چینی پھیلانے اور جمہوریت کو سیڑھی سے اتارنے، مارشل لاءلگوانے اور قتل عام کروانے کے کھلے عام بیانات طاہرالقادری کا اپنے لوگوں کو کفن تیار کرنے قبریں کھدوانے اور پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے لئے اکسانے، سپریم کورٹ، وزیر اعظم ہاﺅس اور پی ٹی وی پر حملے سمیت پر وہ حربہ استعمال کیا جو کہ افراتفری پیدا کرنے خون خرابہ ہونے اور ملکی پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے اور سپریم کورٹ کا کوئی بھی حکم نہ مان کر ڈنڈا بردار فورس کے ذریعے راستہ روکنے شاہراہ دستور کو خالی نہ کرنے اور ہر آنے جانے والے کی تلاشی سے اپنی حدوں سے تجاوز کیا کہ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی تھی لیکن یہ حکومت کی اس پالیسی کا حصہ تھا کہ ین کے سختی سے نمٹنے میں دھرنے والوں کو لاشیں ملیں گی جن پر وہ اپنی سیاست چمکائیں گے حکومت نرمی کی پالیسی کی آخری حدوں تک پہنچ گئی اور دھرنے والے اپنی آخری حدوں کو پہنچ گئے اور عمران کان کا بار بار ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا اعلان اور جب پھر انگلی نہ اٹھی تو بقول سخصے لوٹ کے۔۔۔۔ گھر کو آئے اور اپنی کفت مٹانے کے لئے دونوں نے جلسوں کا سہارا لینا شروع کردیا کیونکہ دھرنوں کی ناکامی سے کھلے عام دھرنے ختم کرنے کا اعلان کرنے سے رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجاتی لہذا سیاسی طریقہ کار سے آہستہ آہستہ دھرنوں کا بازار اجڑنے لگا اور جلسوں میں رونقیں لگنے لگیں ایک تو یہ ہوا کہ طاہرالقادری الیکشنوں کے ذریعے تبدیلی کے لئے قائل ہوگئے جب کہ پہلے قومی اسمنبلی کی سیٹ سے استعفٰی دے کر چلے گئے تھے آئے تھے انقلاب لانے لیکن اسع الیکشن کے لئے خود قائل ہوگئے جس کے خلاف دھرنا دیا تھا یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو واقعی ہر ایک کو نظر آئے گی لہتے ہیں " جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے" دھرنوں کا بازار اجڑنے سے پنڈی/اسلام آباد کے منچلوں کے شام کے بغیر ٹکٹ شو ختم ہوگئے مغربی تہذیب کے علمبرادرون کو منہ کی کھانی پڑی ہر محاذ پر خواہ وہ وزیر اعظم کا استعفٰی والا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ اور حکومت کا خاتمہ PTI کی دوغلی پالیسی پر عوام کی نظریں جمی ہیں کہ کس طرح اسمبلیوں (قومی اسمبلی، پنجاب، اور سندح اسمبلی) سے تو استعفٰی کا نمونا لیکن پختون خواہ اسمبلی کا استثٰنی اور پھر ایک آزاد امیدوار (سابقہ P.P.P.P) NA-149 سے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں سپورٹ آکر یہ سب کیا ہورہا ہے کیا لوگوں کی آنکھیں اور ذہن کھلے ہوئے ہیں جو یہ تضاد دیکھ رہے ہیں لیکن یہ دیکھ کر بھی خاموش ہیں کیونکہ وقت کا تقاضہ ہے اور وقت آنے پر اس کا رد عمل ووٹ کی صورت میں سامنے آئے گا آج 16 اکتوبر جاوید ہاشمی والی سیٹ پر کیا نتیجہ آتا ہے 17 اکتوبر کو پتہ چل جائے گا طاہرالقادری کے بارے میں ایک چینل پر PPPP کے ایک رہنماءریاض کے بقول طاہرالقادری نے زرداری دور میں دھرنا دے کر پچاس کروڑ ہم سے لئے اور موجودہ دھرنوں کو ختم کرنے کے موجودہ حکومت سے 65 کروڑ میں سودا طے کیا کیا سچ کیا جھوٹ بہرحال فیصلہ ہوکر رہے گادھرنوں نے ایک کام دکھایا دھرنوں والوں کے روزانہ کے بدلتے بیان اور دوغلاپن آشکارا کر دیا اور یہ سب کریڈٹ چینلز کو جاتا ہے کچھ چینلز یکطرفہ ٹریفک چلاتے رہے لیکن یہ بھی عوام کی نظرورں میں ہے اپنی اپنی ساکھ بنانے اور بگاڑنے کے لئے سچ اور جھوٹ کافرق لوگوں کو پتہ چل گیا اور لوگوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے بیداری بڑی اہم ہے ملک اگر ہے تو ہم سب عزت سے ہیں اگر ملکی جغرافیائی حدود پر کوئی آنچ آئی تو سب سیاستدان اور فوج اس کی ذمہ دار ہوگی اللہ تعا لٰی پاکستان کو تا قیامت قائم رکھے اور کلمہ کے نام پر معرض وجود میں 27 رمضان المبارک بروز جمعہ قائم و دائم رہے گا اللہ ہم سب کو سچ لکھنے، بولنے، سننے اور برداشت کرنے کی توفیق دے ان دھرنوں میں مہمان اداکار شیخ رشید کی قربانی والی باتیں ہوا میں اڑ گئیں ویسے شیخ رشید کی سیاست سٹوڈنٹ لیڈر شپ سے ایوب خان کے دور میں ان کے ایک ہم نام عبدالرشید شیخ جو کہ میرے کلاس فیلو تھے اور 1966 میں ہم نے اکھٹے گریجویشن کی تھی پولیس کی مار سے پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں اور جو کہ پنڈی صدر سے جو مری روڈ شروع ہوتی ہے اس کے بائیں ہاتھ پر ین کا چند سال پہلے دفتر موجود تھا اگر وہ زندہ ہیں تو وہ اس کی تصدیق کرسکتے


 



About the author

Nidaa

Hiiiii I am Nidaaaa

Subscribe 0
160